16 یوتام نے بات جاری رکھ کر کہا، ”اب مجھے بتائیں، کیا آپ نے وفاداری اور سچائی کا اظہار کیا جب آپ نے ابی مَلِک کو اپنا بادشاہ بنا لیا؟ کیا آپ نے جدعون اور اُس کے خاندان کے ساتھ اچھا سلوک کیا؟ کیا آپ نے اُس پر شکرگزاری کا وہ اظہار کیا جس کے لائق وہ تھا؟ 17 میرے باپ نے آپ کی خاطر جنگ کی۔ آپ کو مِدیانیوں سے بچانے کے لئے اُس نے اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ 18 لیکن آج آپ جدعون کے گھرانے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ آپ نے اُس کے 70 بیٹوں کو ایک ہی پتھر پر ذبح کر کے اُس کی لونڈی کے بیٹے ابی مَلِک کو سِکم کا بادشاہ بنا لیا ہے، اور یہ صرف اِس لئے کہ وہ آپ کا رشتے دار ہے۔ 19 اب سنیں! اگر آپ نے جدعون اور اُس کے خاندان کے ساتھ وفاداری اور سچائی کا اظہار کیا ہے تو پھر اللہ کرے کہ ابی مَلِک آپ کے لئے خوشی کا باعث ہو اور آپ اُس کے لئے۔ 20 لیکن اگر ایسا نہیں تھا تو اللہ کرے کہ ابی مَلِک سے آگ نکل کر آپ سب کو بھسم کر دے جو سِکم اور بیت مِلّو میں رہتے ہیں! اور آگ آپ سے نکل کر ابی مَلِک کو بھی بھسم کر دے!“ 21 یہ کہہ کر یوتام نے بھاگ کر بیر میں پناہ لی، کیونکہ وہ اپنے بھائی ابی مَلِک سے ڈرتا تھا۔
25 اُس وقت سِکم کے لوگ ارد گرد کی چوٹیوں پر چڑھ کر ابی مَلِک کی تاک میں بیٹھ گئے۔ جو بھی وہاں سے گزرا اُسے اُنہوں نے لُوٹ لیا۔ اِس بات کی خبر ابی مَلِک تک پہنچ گئی۔
26 اُن دنوں میں ایک آدمی اپنے بھائیوں کے ساتھ سِکم آیا جس کا نام جعل بن عبد تھا۔ سِکم کے لوگوں سے اُس کا اچھا خاصا تعلق بن گیا، اور وہ اُس پر اعتبار کرنے لگے۔ 27 انگور کی فصل پک گئی تھی۔ لوگ شہر سے نکلے اور اپنے باغوں میں انگور توڑ کر اُن سے رس نکالنے لگے۔ پھر اُنہوں نے اپنے دیوتا کے مندر میں جشن منایا۔ جب وہ خوب کھا پی رہے تھے تو ابی مَلِک پر لعنت کرنے لگے۔ 28 جعل بن عبد نے کہا، ”سِکم کا ابی مَلِک کے ساتھ کیا واسطہ کہ ہم اُس کے تابع رہیں؟ وہ تو صرف یرُبعل کا بیٹا ہے، جس کا نمائندہ زبول ہے۔ اُس کی خدمت مت کرنا بلکہ سِکم کے بانی حمور کے لوگوں کی! ہم ابی مَلِک کی خدمت کیوں کریں؟ 29 کاش شہر کا انتظام میرے ہاتھ میں ہوتا! پھر مَیں ابی مَلِک کو جلد ہی نکال دیتا۔ مَیں اُسے چیلنج دیتا کہ آؤ، اپنے فوجیوں کو جمع کر کے ہم سے لڑو!“
35 صبح کے وقت جب جعل گھر سے نکل کر شہر کے دروازے میں کھڑا ہوا تو ابی مَلِک اور اُس کے فوجی اپنی چھپنے کی جگہوں سے نکل آئے۔ 36 اُنہیں دیکھ کر جعل نے زبول سے کہا، ”دیکھو، لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اُتر رہے ہیں!“ زبول نے جواب دیا، ”نہیں، نہیں، جو آپ کو آدمی لگ رہے ہیں وہ صرف پہاڑوں کے سائے ہیں۔“ 37 لیکن جعل کو تسلی نہ ہوئی۔ وہ دوبارہ بول اُٹھا، ”دیکھو، لوگ دنیا کی ناف[a] سے اُتر رہے ہیں۔ اور ایک اَور گروہ رمّالوں کے بلوط سے ہو کر آ رہا ہے۔“ 38 پھر زبول نے اُس سے کہا، ”اب تیری بڑی بڑی باتیں کہاں رہیں؟ کیا تُو نے نہیں کہا تھا، ’ابی مَلِک کون ہے کہ ہم اُس کے تابع رہیں؟‘ اب یہ لوگ آ گئے ہیں جن کا مذاق تُو نے اُڑایا۔ جا، شہر سے نکل کر اُن سے لڑ!“
39 تب جعل سِکم کے مردوں کے ساتھ شہر سے نکلا اور ابی مَلِک سے لڑنے لگا۔ 40 لیکن وہ ہار گیا، اور ابی مَلِک نے شہر کے دروازے تک اُس کا تعاقب کیا۔ بھاگتے بھاگتے سِکم کے بہت سے افراد راستے میں گر کر ہلاک ہو گئے۔ 41 پھر ابی مَلِک ارُومہ چلا گیا جبکہ زبول نے پیچھے رہ کر جعل اور اُس کے بھائیوں کو شہر سے نکال دیا۔
42 اگلے دن سِکم کے لوگ شہر سے نکل کر میدان میں آنا چاہتے تھے۔ جب ابی مَلِک کو یہ خبر ملی 43-44 تو اُس نے اپنی فوج کو تین گروہوں میں تقسیم کیا۔ یہ گروہ دوبارہ سِکم کو گھیر کر گھات میں بیٹھ گئے۔ جب لوگ شہر سے نکلے تو ابی مَلِک اپنے گروہ کے ساتھ چھپنے کی جگہ سے نکل آیا اور شہر کے دروازے میں کھڑا ہو گیا۔ باقی دو گروہ میدان میں موجود افراد پر ٹوٹ پڑے اور سب کو ہلاک کر دیا۔ 45 پھر ابی مَلِک نے شہر پر حملہ کیا۔ لوگ پورا دن لڑتے رہے، لیکن آخرکار ابی مَلِک نے شہر پر قبضہ کر کے تمام باشندوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اُس نے شہر کو تباہ کیا اور کھنڈرات پر نمک بکھیر کر اُس کی حتمی تباہی ظاہر کر دی۔
46 جب سِکم کے بُرج کے رہنے والوں کو یہ اطلاع ملی تو وہ ایل بریت دیوتا کے مندر کے تہہ خانے میں چھپ گئے۔ 47 جب ابی مَلِک کو پتا چلا 48 تو وہ اپنے فوجیوں سمیت ضلمون پہاڑ پر چڑھ گیا۔ وہاں اُس نے کلہاڑی سے شاخ کاٹ کر اپنے کندھوں پر رکھ لی اور اپنے فوجیوں کو حکم دیا، ”جلدی کرو! سب ایسا ہی کرو۔“ 49 فوجیوں نے بھی شاخیں کاٹیں اور پھر ابی مَلِک کے پیچھے لگ کر مندر کے پاس واپس آئے۔ وہاں اُنہوں نے تمام لکڑی تہہ خانے کی چھت پر جمع کر کے اُسے جلا دیا۔ یوں سِکم کے بُرج کے تقریباً 1,000 مرد و خواتین سب بھسم ہو گئے۔
52 ابی مَلِک لڑتے لڑتے بُرج کے دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ وہ اُسے جلانے کی کوشش کرنے لگا 53 تو ایک عورت نے چکّی کا اوپر کا پاٹ اُس کے سر پر پھینک دیا، اور اُس کی کھوپڑی پھٹ گئی۔ 54 جلدی سے ابی مَلِک نے اپنے سلاح بردار کو بُلایا۔ اُس نے کہا، ”اپنی تلوار کھینچ کر مجھے مار دو! ورنہ لوگ کہیں گے کہ ایک عورت نے مجھے مار ڈالا۔“ چنانچہ نوجوان نے اپنی تلوار اُس کے بدن میں سے گزار دی اور وہ مر گیا۔ 55 جب فوجیوں نے دیکھا کہ ابی مَلِک مر گیا ہے تو وہ اپنے اپنے گھر چلے گئے۔
56 یوں اللہ نے ابی مَلِک کو اُس بدی کا بدلہ دیا جو اُس نے اپنے 70 بھائیوں کو قتل کر کے اپنے باپ کے خلاف کی تھی۔ 57 اور اللہ نے سِکم کے باشندوں کو بھی اُن کی شریر حرکتوں کی مناسب سزا دی۔ یوتام بن یرُبعل کی لعنت پوری ہوئی۔
<- قُضاۃ 8قُضاۃ 10 ->- a دنیا کی ناف: مطلب غالباً کوہِ گرزیم ہے۔