1 اب انسانوں میں سے چنے گئے امامِ اعظم کو اِس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ وہ اُن کی خاطر اللہ کی خدمت کرے، تاکہ وہ گناہوں کے لئے نذرانے اور قربانیاں پیش کرے۔ 2 وہ جاہل اور آوارہ لوگوں کے ساتھ نرم سلوک رکھ سکتا ہے، کیونکہ وہ خود کئی طرح کی کمزوریوں کی گرفت میں ہوتا ہے۔ 3 یہی وجہ ہے کہ اُسے نہ صرف قوم کے گناہوں کے لئے بلکہ اپنے گناہوں کے لئے بھی قربانیاں چڑھانی پڑتی ہیں۔ 4 اور کوئی اپنی مرضی سے امامِ اعظم کا پُروقار عُہدہ نہیں اپنا سکتا بلکہ لازم ہے کہ اللہ اُسے ہارون کی طرح بُلا کر مقرر کرے۔
5 اِسی طرح مسیح نے بھی اپنی مرضی سے امامِ اعظم کا پُروقار عُہدہ نہیں اپنایا۔ اِس کے بجائے اللہ نے اُس سے کہا،
6 کہیں اَور وہ فرماتا ہے،
7 جب عیسیٰ اِس دنیا میں تھا تو اُس نے زور زور سے پکار کر اور آنسو بہا بہا کر اُسے دعائیں اور التجائیں پیش کیں[a] جو اُسے موت سے بچا سکتا تھا۔ اور اللہ نے اُس کی سنی، کیونکہ وہ خدا کا خوف رکھتا تھا۔ 8 وہ اللہ کا فرزند تو تھا، توبھی اُس نے دُکھ اُٹھانے سے فرماں برداری سیکھی۔ 9 جب وہ کاملیت تک پہنچ گیا تو وہ اُن سب کی ابدی نجات کا سرچشمہ بن گیا جو اُس کی سنتے ہیں۔ 10 اُس وقت اللہ نے اُسے امامِ اعظم بھی متعین کیا، ایسا امام جیسا مَلِک صدق تھا۔
- a التجائیں پیش کیں: یعنی امام کی حیثیت سے اُس نے یہ دعائیں اور التجائیں قربانی کے طور پر پیش کیں۔