7 جب وہاں کے مردوں نے رِبقہ کے بارے میں پوچھا تو اسحاق نے کہا، ”یہ میری بہن ہے۔“ وہ اُنہیں یہ بتانے سے ڈرتا تھا کہ یہ میری بیوی ہے، کیونکہ اُس نے سوچا، ”رِبقہ نہایت خوب صورت ہے۔ اگر اُنہیں معلوم ہو جائے کہ رِبقہ میری بیوی ہے تو وہ اُسے حاصل کرنے کی خاطر مجھے قتل کر دیں گے۔“
8 کافی وقت گزر گیا۔ ایک دن فلستیوں کے بادشاہ نے اپنی کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا کہ اسحاق اپنی بیوی کو پیار کر رہا ہے۔ 9 اُس نے اسحاق کو بُلا کر کہا، ”وہ تو آپ کی بیوی ہے! آپ نے کیوں کہا کہ میری بہن ہے؟“ اسحاق نے جواب دیا، ”مَیں نے سوچا کہ اگر مَیں بتاؤں کہ یہ میری بیوی ہے تو لوگ مجھے قتل کر دیں گے۔“
10 ابی مَلِک نے کہا، ”آپ نے ہمارے ساتھ کیسا سلوک کر دکھایا! کتنی آسانی سے میرے آدمیوں میں سے کوئی آپ کی بیوی سے ہم بستر ہو جاتا۔ اِس طرح ہم آپ کے سبب سے ایک بڑے جرم کے قصوروار ٹھہرتے۔“ 11 پھر ابی مَلِک نے تمام لوگوں کو حکم دیا، ”جو بھی اِس مرد یا اُس کی بیوی کو چھیڑے اُسے سزائے موت دی جائے گی۔“
16 آخرکار ابی مَلِک نے اسحاق سے کہا، ”کہیں اَور جا کر رہیں، کیونکہ آپ ہم سے زیادہ زورآور ہو گئے ہیں۔“
17 چنانچہ اسحاق نے وہاں سے جا کر جرار کی وادی میں اپنے ڈیرے لگائے۔ 18 وہاں فلستیوں نے ابراہیم کی موت کے بعد تمام کنوؤں کو مٹی سے بھر دیا تھا۔ اسحاق نے اُن کو دوبارہ کھدوایا۔ اُس نے اُن کے وہی نام رکھے جو اُس کے باپ نے رکھے تھے۔
19 اسحاق کے نوکروں کو وادی میں کھودتے کھودتے تازہ پانی مل گیا۔ 20 لیکن جرار کے چرواہے آ کر اسحاق کے چرواہوں سے جھگڑنے لگے۔ اُنہوں نے کہا، ”یہ ہمارا کنواں ہے!“ اِس لئے اُس نے اُس کنوئیں کا نام عِسق یعنی جھگڑا رکھا۔ 21 اسحاق کے نوکروں نے ایک اَور کنواں کھود لیا۔ لیکن اُس پر بھی جھگڑا ہوا، اِس لئے اُس نے اُس کا نام ستنہ یعنی مخالفت رکھا۔ 22 وہاں سے جا کر اُس نے ایک تیسرا کنواں کھدوایا۔ اِس دفعہ کوئی جھگڑا نہ ہوا، اِس لئے اُس نے اُس کا نام رحوبوت یعنی ’کھلی جگہ‘ رکھا۔ کیونکہ اُس نے کہا، ”رب نے ہمیں کھلی جگہ دی ہے، اور اب ہم ملک میں پھلیں پھولیں گے۔“
23 وہاں سے وہ بیرسبع چلا گیا۔ 24 اُسی رات رب اُس پر ظاہر ہوا اور کہا، ”مَیں تیرے باپ ابراہیم کا خدا ہوں۔ مت ڈر، کیونکہ مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ مَیں تجھے برکت دوں گا اور تجھے اپنے خادم ابراہیم کی خاطر بہت اولاد دوں گا۔“
25 وہاں اسحاق نے قربان گاہ بنائی اور رب کا نام لے کر عبادت کی۔ وہاں اُس نے اپنے خیمے لگائے اور اُس کے نوکروں نے کنواں کھود لیا۔
30 اسحاق نے اُن کی ضیافت کی، اور اُنہوں نے کھایا اور پیا۔ 31 پھر صبح سویرے اُٹھ کر اُنہوں نے ایک دوسرے کے سامنے قَسم کھائی۔ اِس کے بعد اسحاق نے اُنہیں رُخصت کیا اور وہ سلامتی سے روانہ ہوئے۔
32 اُسی دن اسحاق کے نوکر آئے اور اُسے اُس کنوئیں کے بارے میں اطلاع دی جو اُنہوں نے کھودا تھا۔ اُنہوں نے کہا، ”ہمیں پانی مل گیا ہے۔“ 33 اُس نے کنوئیں کا نام سبع یعنی ’قَسم‘ رکھا۔ آج تک ساتھ والے شہر کا نام بیرسبع ہے۔