1 ساؤل کے بیٹے اِشبوست اور داؤد کے درمیان یہ جنگ بڑی دیر تک جاری رہی۔ لیکن آہستہ آہستہ داؤد زور پکڑتا گیا جبکہ اِشبوست کی طاقت کم ہوتی گئی۔
7 لیکن ایک دن اِشبوست ابنیر سے ناراض ہوا، کیونکہ وہ ساؤل مرحوم کی ایک داشتہ سے ہم بستر ہو گیا تھا۔ عورت کا نام رِصفہ بنت ایّاہ تھا۔ اِشبوست نے شکایت کی، ”آپ نے میرے باپ کی داشتہ سے ایسا سلوک کیوں کیا؟“ 8 ابنیر بڑے غصے میں آ کر گرجا، ”کیا مَیں یہوداہ کا کُتا[a] ہوں کہ آپ مجھے ایسا رویہ دکھاتے ہیں؟ آج تک مَیں آپ کے باپ کے گھرانے اور اُس کے رشتے داروں اور دوستوں کے لئے لڑتا رہا ہوں۔ میری ہی وجہ سے آپ اب تک داؤد کے ہاتھ سے بچے رہے ہیں۔ کیا یہ اِس کا معاوضہ ہے؟ کیا ایک ایسی عورت کے سبب سے آپ مجھے مجرم ٹھہرا رہے ہیں؟ 9-10 اللہ مجھے سخت سزا دے اگر اب سے ہر ممکن کوشش نہ کروں کہ داؤد پورے اسرائیل اور یہوداہ پر بادشاہ بن جائے، شمال میں دان سے لے کر جنوب میں بیرسبع تک۔ آخر رب نے خود قَسم کھا کر داؤد سے وعدہ کیا ہے کہ مَیں بادشاہی ساؤل کے گھرانے سے چھین کر تجھے دوں گا۔“
11 یہ سن کر اِشبوست ابنیر سے اِتنا ڈر گیا کہ مزید کچھ کہنے کی جرأت جاتی رہی۔
13 داؤد نے جواب دیا، ”ٹھیک ہے، مَیں آپ کے ساتھ معاہدہ کرتا ہوں۔ لیکن ایک ہی شرط پر، آپ ساؤل کی بیٹی میکل کو جو میری بیوی ہے میرے گھر پہنچائیں، ورنہ مَیں آپ سے نہیں ملوں گا۔“ 14 داؤد نے اِشبوست کے پاس بھی قاصد بھیج کر تقاضا کیا، ”مجھے میری بیوی میکل جس سے شادی کرنے کے لئے مَیں نے سَو فلستیوں کو مارا واپس کر دیں۔“ 15 اِشبوست مان گیا۔ اُس نے حکم دیا کہ میکل کو اُس کے موجودہ شوہر فلطی ایل بن لَیس سے لے کر داؤد کو بھیجا جائے۔ 16 لیکن فلطی ایل اُسے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ روتے روتے بحوریم تک اپنی بیوی کے پیچھے چلتا رہا۔ تب ابنیر نے اُس سے کہا، ”اب جاؤ! واپس چلے جاؤ!“ تب وہ واپس چلا۔
17 ابنیر نے اسرائیل کے بزرگوں سے بھی بات کی، ”آپ تو کافی دیر سے چاہتے ہیں کہ داؤد آپ کا بادشاہ بن جائے۔ 18 اب قدم اُٹھانے کا وقت آ گیا ہے! کیونکہ رب نے داؤد سے وعدہ کیا ہے، ’اپنے خادم داؤد سے مَیں اپنی قوم اسرائیل کو فلستیوں اور باقی تمام دشمنوں کے ہاتھ سے بچاؤں گا‘۔“ 19 یہی بات ابنیر نے بن یمین کے بزرگوں کے پاس جا کر بھی کی۔ اِس کے بعد وہ حبرون میں داؤد کے پاس آیا تاکہ اُس کے سامنے اسرائیل اور بن یمین کے بزرگوں کا فیصلہ پیش کرے۔
20 بیس آدمی ابنیر کے ساتھ حبرون پہنچ گئے۔ اُن کا استقبال کر کے داؤد نے ضیافت کی۔ 21 پھر ابنیر نے داؤد سے کہا، ”اب مجھے اجازت دیں۔ مَیں اپنے آقا اور بادشاہ کے لئے تمام اسرائیل کو جمع کر لوں گا تاکہ وہ آپ کے ساتھ عہد باندھ کر آپ کو اپنا بادشاہ بنا لیں۔ پھر آپ اُس پورے ملک پر حکومت کریں گے جس طرح آپ کا دل چاہتا ہے۔“ پھر داؤد نے ابنیر کو سلامتی سے رُخصت کر دیا۔
26 یوآب نے دربار سے نکل کر قاصدوں کو ابنیر کے پیچھے بھیج دیا۔ وہ ابھی سفر کرتے کرتے سیرہ کے حوض پر سے گزر رہا تھا کہ قاصد اُس کے پاس پہنچ گئے۔ اُن کی دعوت پر وہ اُن کے ساتھ واپس گیا۔ لیکن بادشاہ کو اِس کا علم نہ تھا۔ 27 جب ابنیر دوبارہ حبرون میں داخل ہونے لگا تو یوآب شہر کے دروازے میں اُس کا استقبال کر کے اُسے ایک طرف لے گیا جیسے وہ اُس کے ساتھ کوئی خفیہ بات کرنا چاہتا ہو۔ لیکن اچانک اُس نے اپنی تلوار کو میان سے کھینچ کر ابنیر کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ اِس طرح یوآب نے اپنے بھائی عساہیل کا بدلہ لے کر ابنیر کو مار ڈالا۔
28 جب داؤد کو اِس کی اطلاع ملی تو اُس نے اعلان کیا، ”مَیں رب کے سامنے قَسم کھاتا ہوں کہ بےقصور ہوں۔ میرا ابنیر کی موت میں ہاتھ نہیں تھا۔ اِس ناتے سے مجھ پر اور میری بادشاہی پر کبھی بھی الزام نہ لگایا جائے، 29 کیونکہ یوآب اور اُس کے باپ کا گھرانا قصوروار ہیں۔ رب اُسے اور اُس کے باپ کے گھرانے کو مناسب سزا دے۔ اب سے ابد تک اُس کی ہر نسل میں کوئی نہ کوئی ہو جسے ایسے زخم لگ جائیں جو بھر نہ پائیں، کسی کو کوڑھ لگ جائے، کسی کو بےساکھیوں کی مدد سے چلنا پڑے، کوئی غیرطبعی موت مر جائے، یا کسی کو خوراک کی مسلسل کمی رہے۔“ 30 یوں یوآب اور اُس کے بھائی ابی شے نے اپنے بھائی عساہیل کا بدلہ لیا۔ اُنہوں نے ابنیر کو اِس لئے قتل کیا کہ اُس نے عساہیل کو جِبعون کے قریب لڑتے وقت موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔
34 ”ہائے، ابنیر کیوں بےدین کی طرح مارا گیا؟ تیرے ہاتھ بندھے ہوئے نہ تھے، تیرے پاؤں زنجیروں میں جکڑے ہوئے نہ تھے۔ جس طرح کوئی شریروں کے ہاتھ میں آ کر مر جاتا ہے اُسی طرح تُو ہلاک ہوا۔“
- a کُتا: لفظی ترجمہ: کُتے کا سر